؛•┈•┈•⊰✿🌹🌼🌹✿⊱•┈•┈•؛
معراج حیات
درخت پہ پھل پکتا ہے اور شاخ
کے ساتھ لڑکا ہو بڑا حسین دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ایک ہاتھ آتا ہے جو اسے شاخ سے تو
لیتا ہے۔ کیا یہ ظلم ہے؟ نہیں ! یہ درخت کی زندگی کا معراج ہے۔ کیونکہ اس پھل کو
قدرت نے ذائقہ ہی اس لیے بخشا ہے کہ دوسری مخلوقات کے دل میں اسے توڑنے کی تحریک پیدا
ہو۔ تا کہ وہ اسے توڑیں اور اس کے پیٹ میں موجود بیج زمین پر بکھر جائے اور اس بیج
سے نئے درخت پیدا ہوں۔ گو یا بیج کامٹی میں مل جانا بیچ کی معراج ہے۔ جب بھی کوئی
زندہ چیز اپنی زندگی کے معراج کو پہنچتی ہے تو یہی کچھ نہوتا ہے۔ بھیڑیے کے منہ میں
آنے والی بھیٹر اپنی زندگی کے معراج کو پہنچتی ہے اور بلی کے پنجوں میں جان دینے
والا چوہا اپنا مقصد حیات پالیتا ہے۔ انسان کے ہاتھوں استعمال ہونے والی مخلوقات
ظلم کا شکار نہیں ہوتیں۔ بلکہ اپنی زندگی کا مقصد اصلی گویا معراج حیات حاصل کر لیتی
ہے۔ گھوڑ ا خالی پیٹھ خوشی سے نہیں اتر اتا۔ لیکن جب اس کی پیٹھ پر انسان سوار ہو
جاتا ہے۔ تو وہ اٹھلاتے ہوئے مور کی طرح پلین ڈالنے لگتا ہے۔ مرغی انڈا دے کر نکلتی
ہے تو اپنی خوشی سے گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتی ہے کہ اس نے کارنامہ سرانجام دیا
ہے۔ اس کا انڈا اٹھا لیا جائے تا کہ وہ اپنے معراج تک پہنچے۔ انسان کے ہاتھوں ذبح
ہونے والے جانور ظلم کا شکار نہیں ہوتے بلکہ یہی ان کا زندگی گزارنے کا طبعی طریقہ
ہے اور یوں ہی وہ اپنے مقصد حیات کو حاصل کرتے ہیں۔ یہ تمام مخلوقات انسان کے حضور
شر سجود کروائی گئی ہیں۔ انسان کی اطاعت ہی ان کا فریضہ حیات ہے اور انسان جسے یہ
تمام نعمتیں وافر مقدار میں عطا کی گئی ہیں۔ ان کے عوض اپنا معراج حیات حاصل کرنے
کا پابند ہے۔ انسان جسے کسی دوسری مخلوق کی اطاعت کا فریضہ نہیں سونپا گیا اپنا
مقصد زندگی کیسے حاصل کرے گا۔ انسان جسے الوہیاتی توانائی بخشی گئی ہے۔ عقل و شعور
کی دولت عطا کی گئی ہے۔ کرہ زمین پر چلتے ہوئے اس خود کار نظام میں ایک طرح کی
مصنوعی تیزی پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے ۔
فطرت نہیں ہے اگر چہ بے ذوق
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
انسان جب اپنی زیر گمیں سلطنت کو اپنے استعمال میں
لائے گا۔ اپنے حضور مجد در یز ملائکہ کو استعمال کر کے حیات نو فراہم کرے گا تو اس
طرح وہ فطرت کے منصوبوں کی تیزی سے تکمیل کا باعث بن جائے گا۔ لیکن اسے عقل دی گئی
ہے اور وہ ان اشیاء کا استعمال خود کار اطاعت کے سے انداز میں نہیں کرے گا۔ بلکہ
اس کا ہر عمل اس کی ذاتی مرضی اور بے پناہ اختیارات کے تحت رو پذیر ہوگا ۔ باقی
مخلوقات اس کی پابند ہیں۔ لیکن وہ کسی مخلوق کا پابند نہیں۔ وہ صرف اس نظام کا
پابند ہے جو خالق کائنات نے اسے وحی کے ذریعے عطا فر مایا اور اس کے فرائض سرانجام
دینے میں اسے با اختیار کر دیا۔ وہ جب اپنے فرائض عقل کو استعمال کرتے ہوئے دل و
جان سے صحیح صحیح سرانجام دے گا۔ کائنات میں توازن قائم کرنے کا باعث ہوگا جس کے
نتیجے میں کرہ زمین پر ایک ایسی جنت تخلیق ہوگی جو اس جنت سے لاکھوں گنا خوبصورت
اور دلکش ہے جس جنت سے انسان کونکالا گیا۔
؛•┈•┈•⊰✿🌹🌼🌹✿⊱•┈•┈•؛